ابھی تو تتلیوں میں ڈھیر سارا رنگ بھرنا تھا
ابھی تو زندگی نے چند لمحے ساتھ چلنا تھا
ابھی تو دن سے پہلے دن کا اک اغاز ہونا تھا
ابھی اس زندگی کے شور کو اک ساز ہونا تھا
ابھی ان کاغذوں کی کشتیوں نے دور جانا تھا
ابھی تو بادلوں کی اِس گرج کو تھم سا جانا تھا
نا جانے کیوں مرا دن رات سے پہٖلے نہیں آیا
نا جانے کیوں مرے کانوں میں ہے اس شور کا سایہ
نا جانے کیوں یہ کاغذ اتنی جلدی بھیگ جاتے ہیں
نا جانے کیوں ہماری زندگی میں موڑ آتے ہیں
نا جانے کیوں ہم دنیا اتنی جلدی چھوڑ جاتے ہیں
(فہد صدیقی)